تحریر ::_حناءبدر ایلمنٹری ٹیچر کوٹلی
ایک انسان کی زندگی کے دو اہم پہلو؛ سیکھنا اور سکھانا جو حقیقی معنوں میں اس سفر پر گامزن ہو جائے تو پے در پے وہ اہل علم کی سر پرستی میں جہالت کی تاریکی میں رہنے والوں کے لیے روشن چراغ کی مانند ہوتا ہے مگر جو علم کے نور سے روشناس نہ ہوا وہ دانائی سے محروم ہو گیا۔
اپنی تحریر کا نقطہ نظر جس میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں غرباء کے بچوں کے لیے کوششوں کو زیر بحث لانے کی بات کریں تو ایک پَلڑا بھاری ہے جس کو معاشرے کا اعتماد بھی بھرپور حاصل ہے۔ میری مراد نجی ادارہ جات ہیں جن کو تجربات کی روشنائی سے روبرو کرتے ہوئے اہل علم کی پیش نظر کرنا چاہوں گی۔
ہم وہ قوم ہیں جس کو اقبال نے شاہین کہا جس کی اونچی پرواز سے مراد بلند حوصلے ہیں۔ اسکی ایک بڑی مثال یہ شعر بھی ہے
تندی بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اْڑانے کے لئے
مگر۔۔۔ یہاں پر تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے جو کہ تحریر کے بامقصد پہلو کی طرف نشاندہی کرے گا وہ اہم کردار ‘ایک غریب طالب علم’ ہے جس کی نجی زندگی سے لے کر اس کے تعلیمی سفر تک اکثریت کا کردار اس سے ہمدردانہ جذبات کا اظہار ہے مگر سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کیا ان دلی جذبات سے مسائل کا حل ممکن ہے یا کسی ایک پہلو پر اس طبقے کے لیے ہم طاقت کے بازو بن سکتے ہیں؟
بات کا رخ ان کے تعلیمی سفر تک فلوقت محدود کرنا چاہوں گی جہاں ان کی رسائی سرکاری اداروں تک ہوتی مگر بدقسمتی سے منفی پہلوؤں کی وجہ سے ان سرکاری اداروں کی خستہ حالی میں بہتری کے لیے بہت کاوشوں کے باوجود بھی دل برداشتہ صورت حال ہے۔😕
ان منفی پہلوؤں میں چیدہ چیدہ عوامل کو سامنے لانا چاہوں گی۔ معاشرے کی اکثریت کا سرکاری اساتذہ کی کوششوں کو کم سراہنا اور حوصلہ شکنی زیادہ کرنا؛ انتظامیہ کی تربیتی مراکز میں بھرپور شمولیت کے باوجود معاشرے کا کم تعاون ہونا جن کے مثبت کردار سے موثر کن تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ سرکاری ادارہ جات کی خامیوں کو بارہا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا مگر ان کے حل کے لیے تجاویز اور حکمت عملیوں میں بھرپور حصہ لینے کے بجائے وہ آخری صف میں نظر آتے ہیں۔ نتیجتاً غرباء کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس سلسلے میں ہمارا معاشرہ مثبت اقدامات کو کم مگر منفی عناصر کو زیادہ پروان چڑھاتا ہے جس کا سارا ملبہ بچوں کی صلاحیتوں اور روشن مستقبل کو ملیامیٹ کر دیتا۔
تاہم اس میں کوئی تضاد نہیں کہ نجی تعلیمی ادارے اس درس و تدریس کے سفر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ بچوں کو معیاری تعلیم اور مستقبل کو بہتر بنانے کا مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ جس کے باعث نجی ادارہ جات کے نتائج بھی بہت بہتر ہوتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق، 75% لوگ نجی تعلیمی اداروں کو سرکاری تعلیمی اداروں کے مقابلے میں بہتر سمجھتے ہیں۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا کہ غرباء کے بچوں کو معیاری تعلیم کون فراہم کرتاہے؟ وہ بہترین تدریسی ماحول، حوصلہ افزائی، مستقبل کے لیے بہترین راہنمائی، انتظامیہ کے ساتھ معاشرے کے دانشور طبقے کی ان امور پر بات چیت یا تعاون کی یقین دہانی اور ان جیسے بہت سارے عوامل جن کا شمار یہاں پر ممکن نہیں۔ کیا یہ سب کاوشیں غرباء کے بچوں کے لیے کی جاتی ہیں؟؟ تو غالباً اس جواب میں کم شرح نظر آئے گی جس پر آپ کی توجہ مرکوز کروانا چاہوں گی۔ اس میں ضلعی انتظامیہ سے لے کر والدین تک سب کا بھرپور تعاون آپس میں ہونا بہت ضروری ہے۔
ایک مثال بوائز ایلیمنٹری کالج کوٹلی میں کروائی جانے والی تربیتی ورکشاپ ہے۔ پرنسپل سجاد احمد جو اعلیٰ اوصاف کے مالک انسان ہیں ان کی زیرنگرانی اساتذہ کے لیے چھ روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں میرا تجربہ بطور ایلمنٹری معلمہ ہوا جہاں اساتذہ کو سرکاری اداروں میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے لیے بہترین تربیتی پلیٹ فارم دیا۔
علاوہ ازیں ادارے کے سربراہ سجاد احمد نے تجربہ کار، اعلیٰ کارکردگی کے تابع دار اور معیاری ٹرینئیرز کا انتخاب کیا جنھوں نے اپنی پوری محنت اور جزبے سے تجربات کا جامہ پہناتے ہوئے سرگرمیوں کی روشنائی سے مختلف اداروں کے اساتذہ کو ایک اچھا معلم بننے کے لیے ان کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے عملی تدابیر اور اس پر عمل کے لیے بہترین تربیت دینے کی کوشش کیں جو کہ تدریسی طریقہ کار کو نئے دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایک بہترین کوشش ہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بات بھی واضح کرنا چاہتی ہوں کہ ضلعی انتظامیہ کے اس جامع کردار کو حقیقت کا رنگ دینے میں مزکورہ بالا کالج نے اس شعبے سے اپنی ایمانداری کا خالص ربط دکھایا۔
بالآخر تمام نکات کا مرکزی خیال اس بات کی تہہ تک پہنچا کہ جو بچے بہتر صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں وہ والدین کی بہتر مالی صورت حال ہونے کی بدولت نجی اداروں کے چراغ بن جاتے اس پہلو کو ہی نمونہ بنا کر سرکاری اداروں کو تنقید سے لپیٹتے رہے تو پھر مسائل بھی اداروں میں قید رہیں گے یا کبھی کبھار سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے اور یہ قوم اجالوں کے انتظار میں جہالت کے زیور پہن کے بیٹھی رہے گی😓
اگرچہ مسائل بہت ہیں مگر ہم نے اپنے حصے کا چراغ جلانا ہے اس کی ابتدا ضلعی انتظامیہ سے ہوتی جیسے مزکورہ بالا کالج کے ٹیم ورک کا جاندار کردار قابل تحسین ہے مگر انھوں نے اپنی کوششوں کو حرف آخر نہیں سمجھا بلکہ ورکشاپ کے تمام حاضرین کو بہتر حکمت عملیوں کے لیے اپنی رائے رکھنے کا بھرپور موقع دیا اور مزید بہتری کی راہ ہموار کرنے کے لیے سب کی کاوشوں کو سراہا۔
اس طرح کے تربیتی ورکشاپ کے ادارے نوجوان نسل کو تدریسی طریقہ کار سے صحیح معنوں میں روشناس کرواتے ہیں۔ ایسے تربیتی اداروں کی جب حوصلہ افزائی کی جائے گی اس سے سرکاری اداروں میں ہم تبدیلی کی فضا قائم کر سکتے ہیں۔
یہ خستہ حال عمارتوں میں کھلے آسمان تلے تپتی دھوپ میں بیٹھنے والے، ہر طرح کے موسم میں کبھی پتھروں پہ کبھی کچی زمین پر بیٹھنے والے غریب طلباء ہوتے ہیں ان کے لیے اہل علم اپنے حصے کا کام کر کے ان بچوں کو آنے والے دور کا اصل ہیرو بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضرورت ہے ہم سب کو تعلیم کے اس سفر میں یکجا ہونے کی تاکہ بجائے انتظامیہ کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے ان کا مضبوط سہارا بنیں۔
امید کرتی ہوں یہ حقیقت پہ مبنی الفاظ ہم سب کے اندر کام کرنے کا جذبہ ضرور پیدا کریں گے تب ہی صحیح معنوں میں قوم کے روشن چراغ اور اصل معمار کا مقصد پورا ہو گا۔